حضرت میاں شیر محمد شیرربانی رحمتہ اللہ علیہ
- Admin
- Sep 23, 2021
حضرت میاں شیر محمد شیرربانی رحمتہ اللہ علیہ پنجاب کے ان اولیا کرام میں سے ہیں جنہوں نے سلسلہ نقشبندیہ میں بے پناہ شہرت حاصل کی۔ آپؒ پیدائشی ولی تھے۔ آپؒ اتباع نبوع ﷺ کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ آپؒ نے اپنی پوری زندگی اتباع سنت میں گذاری اور اپنے پیروکاروں کو بھی یہی درس دیا کہ زندگی کے ہر فعل میں سنت نبوی کی اتباع کرو۔ آپؒ جامع علوم ظاہری وباطنی تھے۔ آپ ؒعلم، ریاضت، مجاہدہ، زہد، جودوسخا اور بردباری میں بے نظیر تھے۔ گویا کہ آپ ؒاپنے وقت کے قطب الاقطاب اور ولی کامل تھے۔ آپ ؒکی برکت سے کئی مردہ دل نور الہی سے منور ہوئے ہیں اور آج بھی آپؒ کا ذکر اور نام بڑی عقیدت وارفتگی سے لیا جاتا ہے۔
آپؒ کے نقشبندی آباو اجداد کابل سے ہجرت کر کےپنجاب آئے اور قصور میں رہائش اختیار کی۔ وہاں سے حجرہ شاہ مقیم میں رہائش اختیار کی پھر وہاں سے شرقپور میں آکر آباد ہوئے۔ آپؒ کے والد ماجد کا نام میاں عزیز الدینؒ تھا۔ ذات کے آرائیں تھے۔ کھیتی باڑی ان کا خاندانی پیشہ تھا۔ یہاں شرقپور میں حضرت میاں شیر محمد شیرربانی رحمتہ اللہ علیہ کی پیدائش 1865 عیسوی میں ہوئی۔
آپؒ کی ولادت کے بعد ہی سے آپ ؒکے جسم اطہر اور چہرہ نورانی سے ولی کامل ہونے کے اثار روز روشن کی طرح ظاہر تھے اور ہر شخص جو حضرت صاحب کو دیکھتاتھا بے اختیار پکار اٹھتا تھا کہ یہ بچہ تو مادر زاد ولی ہے۔ آپؒ کی پیدائیش سے قبل ایک مرتبہ دریائے راوی میں طغیانی آگئی۔ دریائے راوی میں جب بھی طغیانی آتی شرقپور بھی زد میں آجاتا۔ فصلیں اور مویشی، انسان گھر سبھی متاثر ہوتے۔ اس بار جب طغیانی آئی اور تمام تدبیریں ناکام ہوگئیں تو شرقپور شریف کے لوگ قریب کے ایک قصبے کوٹلہ پنجوبیگ پہنچے۔ وہاں ان دنوں ایک نامی گرامی فقیر رہا کرتے تھے۔ زہدوتقوی، علم وفضل اور جلال وکمال کے سبب دور دور تک آپؒ کا چرچا تھا۔ سفید داڑھی، سرخ وسفید رنگ، اونچا قد آنکھوں میں ایک خاص چمک اور روشن چہرہ تھا۔ یہ بابا امیر الدین رحمتہ اللہ علیہ تھے۔ لوگوں نے ان کے پاس جا کر دہائی دی کہ بابا شرقپور میں سیلاب آگیا ہے ہم ہر تدبیر کر کے دیکھ چکے ہیں۔ اب دعا کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
متعدد تذکروں میں مرقوم ہے کہ بابا امیر الدینؒ نے سوالیوں کو اپنا رومال دیا اور ہدایت کی۔ ـلوگو! جاو اور دریا کو یہ میرا رومال دکھا کے اس کو میرا سلام کہناـ سوالی مطمن نہیں ہوئے لیکن بابا نے خاموشی اختیار کر لی۔ آخر لوگ امیدوبیم کے عالم میں رات کے وقت شرقپور واپس پہنچے۔ دریا ٹھاٹھیں ماررہاتھا اور شہر کے گرد مسلسل اپنا گھیرا تنگ کر رہا تھا۔ لوگوں نے بابا کی ہدایت پر بعینہ عمل کیا اور اپنے گھروں کو جاکر عبادت میں مشغول ہوگئے۔ دوسری صبح دریا شرقپور سے تین کلومیڑ پرے ہٹ گیا اور مکان ومکین دونوں ناگہانی بلا سے محفوظ ہوگئے۔
سیلاب کے کچھ عرصہ بعد لوگوں نے رومال والے بابا امیر الدینؒ کو شرقپور میں دیکھا۔ شہر کے لوگ سمٹ سمٹا کر ان کے گرد جمع ہوگئے اور تعظیم واحترام سے دعا کے طالب ہوئے۔ کسی نے جرات کر کہا کہ حضور غلاموں کو خدمت کا موقع دیجیے۔ بابا جی ؒمسکرائے اور ایک جانب چل دیے۔ شرقپور اس زمانے میں ایک قلعہ نما بستی تھی۔ کچے پکے مکانات اور تنگ گلیاں تھیں۔ بابا جی ؒبڑھتے جارہے تھے، ان کے پیچھے ایک ہجوم سرجھکائے چل رہا تھا۔ وہ ایک تنگ گلی میں پہنچ کر ایک مکان کے پاس ٹھہر گئے اور لمبی لمبی سانسیں کھینچنےلگے۔ لوگوں کو بہت جستجو ہوئی لیکن کچھ سوچ کر خاموش ہورہے۔ اس کے بعد بابا جی ؒکا شرقپور میں آنا جان معمول بن گیا۔ وہ جب بھی آتے مختلف گلیوں سے ہوتے ہوئے اس مکان تک پہنچتے اور گہری گہری سانسیں لینے لگتے۔
ایک دن کسی انے آگے بڑھ کر پوچھ لیا۔ بابا جی تم کیا سونگھتے ہو یہاں۔ بابا امیر الدینؒ نے بے نیازی سے جواب دیا۔ جا اپنی راہ لے۔ پھر وہ مضطرب انداز میں بولے خوشبو آتی ہے، پر خود نہیں آتے۔ آس پاس کھڑے لوگوں نے پوچھا بابا کیا کوئی خوشبو آتی ہے جو اتنی لمبی لمبی سانسیں کھینچتے ہو تم۔۔۔ بابا جی ؒمسکرائے، ہاں بیلیو ! خوشبو تو آتی ہے پر اب انہیں بھی آجانا چاہیے لوگ پوچھتے۔ بابا جی کسے ؟ بابا جی سوال کرنے والوں کو اضطراری نظروں سے دیکھتے ہوئے آگے بڑھ جاتے۔ 1857 کی جنگ آزادی ناکام ہوئے ابھی تھوڑا عرصہ گزرا تھا کہ برطانوی حکومت مسلمان باغیوں کی تلاش میں پنجاب کا گاوں گاوں چھان رہی تھی۔ چھاپے پہ چھاپے پڑ رہے تھے۔ نفسا نفسی کا عالم تھا۔ کچھ حجت پسند لوگوں نے شرقپور میں بابا امیر الدینؒ کی معنی خیز آمد کو نئے نئے رنگ دینے شروع کر دیے۔ بعض لوگ نے ڈھکے چھپے لفظوں میں اس شک کا اظہار کیا کہ کہیں یہ شخص درویش کے لبادے میں فرنگیوں کا کوئی کارندہ نہ ہو اور یہاں باغیوں کی تلاش میں نہ آتا ہو۔ اسی دوران کا ذکر ہے۔ 1865 کی ایک رات تھی لوگوں نے بابا امیر الدینؒ کو پھر شرقپور میں دیکھا۔ آج بابا جی درمیان میں کہیں نہ ٹھہرے۔ انہوں نے سیدھے اس مکان پر جا کر دم لیا، جہاں سے انہیں خوشبو آتی تھی۔ آج ان کا عالم ہی کچھ اور تھا۔ لوگوں نے انہیں اس عالم میں پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ آج نہ انہوں نےلمبی لمبی سانسیں کھینچیں، نہ کسی ترددوتجسس کا اظہار کیا۔ جو یہاں آکر ان پر طاری ہو جاتاتھا۔۔۔ لوگوں نے بابا جی سے اس تبدیلی کا سبب پوچھا۔
بابا جی ؒ نے ساختہ اس مکان کی طرف اشارہ کیا اور والہانہ انداز میں بولے۔ دیکھا وہ آگئے۔ آخر آہی گئےہیں۔۔۔ متحیر لوگوں نے سوال کیا۔ کون آگئے باب۔۔۔۔بابا جی ؒنے خندہ لبی سے جواب دیا، میاں عزیز الدین ؒسے پوچھو جا کے۔ لوگوں نےبے تابانہ بڑھ کر دروازے پر دستک دی۔ پتا چلا کہ آج اس گھر میں ایک لڑکا پیدا ہواہے۔ لوگ مڑے مگر
با باجی ؒجاچکے تھے۔ شہریوں کی نظر میں میاں عزیز الدین ؒکے گھر کی وقعت اور بڑھ گئی۔ ہر چند کہ پہلے بھی یہ گھر اپنے مکینوں کی پرہیزگاری کے باعث بستی کے ایک ممتاز گھر کی حشیت سے پہچانا جاتا تھا۔
حضرت میاں شیر محمد المعروف شیرربانی رحمتہ اللہ علیہ کے آباو اجداد افغانستان سے ہندوستان آئے تھے پہلے وہ دیپالپور میں مقیم ہوئے پھر زمانے کے انقلاب نے خاندان کے بعض بزرگوں کو شہر قصور میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔ علم وہنر کے سبب شہر کے روسا ان کے حلقہ بگوش ہوگئے اور انہیں مخدوم کے لقب سے یاد کرنے لگے۔ دین کی تدریس و تبلیغ ک سوا اس خاندان کا کوئی مشغلہ نہیں تھا۔۔ وہ محنت و مشقت کی روزی پر یقین رکھتے تھے اس لیے اپنی کتابوں اور قرآن پاک کی کتابت کرتے تھے۔ قرآن پاک کا حفظ اس خاندان کی روایت تھی۔ حالات کچھ معمول پر آئے تو ان میں چند بزرگ دیپال پور واپس چلے گئے مگر خاندان کے باقی لوگوں کو قصور کی آب وہوا اور اس کے لوگ ایسے پسندآئے کہ وہ وہیں کے ہوکے رہ گئے۔ میاں عزیز الدین ؒکے نانا مولوی غلام رسول ؒکو قصور کے باشندے بے حد عزیز رکھتے تھے۔ مولوی غلام رسولؒ تپاک ، انکسار، دیانت اور زہد وتقوی میں ایک مثال تھے۔ وہ حافظ ہونے کے علاوہ خطاط بھی تھے۔ لوگ اپنے دینی اور سماجی مسائل کے حل کے لیے ان ہی سے رجوع کرتے تھے۔
اس دور میں قصور آج کے قصور سے بہت مختلف تھا اس وقت شہر کا ستارہ عروج پر تھا اور پنجاب کے خوشحال علاقوں میں اس کا شمار ہوتا تھا دور دور کے صاحبان کمال اور اہل ہنر یہاں جمع ہو گئے تھے۔ نیز یہ شہر ایک تجارتی مرکز بھی تھا۔ پھر نجانے کیا ہوا قصور کو کسی کی نظر لگ گئی۔ یہاں کے حاکم نواب نظام الدین خاں کی مہاراجہ رنجیت سنگھ سے رنجش ہوگی۔ رنجیت سنگھ کی یورش سے تقریبا سبھی کچھ تباہ وبرباد ہو کے رہ گیا۔ تاہم کچھ عرصہ بعد پھر سے عمارتیں اٹھنے لگیں۔ پھر دوسرے یا تیسرے سال شہر کے دوسرے حاکم نواب قطب الدین کے عہد میں رنجیت سنگھ نے دوبار فوج کشی کی اور وہ ریاست کو غضب کرنے ارادہ رکھتا تھا۔ لوگوں نے اس بار بھی زبردست جنگ کی لیکن دو ماہ کے محاصرے نے شہر کے غلے کے زخیرے کو ختم کر دیا اور ایسا قحط پڑا کے لوگ دانے دانے کو ترسنے لگے، مویشیوں پر گزار ہونے لگا مویشیوں کے بعد سواری کے گھوڑوں کی باری آئی، لوگوں نے انہیں سے پیٹ بھرا۔ آخر یہ ذخیرہ بھی ختم ہو گیا۔ مرتے کیا نہ کرتے لوگ شہر سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ میاں غلام رسولؒ بھی قصور کے ایک قصبے حجرہ شاہ مقیم چلے گئے اور خوشنویسی کا مشغلہ اختیار کر کے جیسے تیسے زندگی بسر کرنے لگے مگر کچھ عرصے بعد انہیں یہاں سے بھی ہجرت کرنی پڑی۔ انہوں نے شرقپور آ کے پناہ لی۔ شرقپور نے ان خانماں بربادوں کے لیے اپنے دروزے کھول رکھے تھے۔ مولوی غلام رسولؒ نے وہیں اپنا مسکن بنایا اور ایک مسجد اور ایک مدرسے کی بنیاد رکھی۔ اس کچی پکی درس گاہ نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑی علمی خانقاہ کی صورت اختیار کر لی۔ مولوی غلام رسولؒ کے ایک بھتیجے حافظ غلام حسین ؒ تھے ۔ ان سے میاں صاحبؒ نے اپنی اکلوتی لڑکی آمنہ کی شادی کردی تھی۔ انہی کے بطن سے میاں عزیز الدین ؒ تولد ہوئے۔ تقوی کسی کو ورثے میں نہیں ملتا البتہ عبادت و ریاضت کا ماحول میاں عزیز الدینؒ کو ورثے میں ملا تھا۔ وہ ایک شب بیدار بزرگ تھے باطنی علوم کے علاوہ ظاہری علوم سے بھی پیراستہ تھے۔ دینوی امور میں گھر میں رہنے کے باوجود دنیا سے بچے بچے رہتے تھے۔ ضلع حصار کے محکمہ ویکسی نیشن سے وہ ایک مدت تک وابستہ رہے۔ تعطیلات میں وہ اپنے گھر شرقپور میں آتے تھے۔ نوکروں کو ساتھ بٹھا کر کھانا کھلانا ان کا معمول تھا۔ اپنے کپڑے وہ خود دھوتے تھے۔ بلکہ بسا اوقات نوکروں کے کپڑے بھی دھو دیتے تھے۔ ان کے محکمے میں رشوت ستانی عام تھی لیکن انہوں نے ساری عمر سوکھی تنخواہ پر بسر کی۔ جو خوشبو شرقپور کی ایک گلی میں بابا امیر الدینؒ سونگھتے تھے وہ میاں عزیز الدین ؒکے ہاں ایک فرزند کی صورت میں مجسم ہوئی۔ والدہ آمنہ نے اپنی خاندانی روایات کے مطابق نومولود کی تربیت کا بیڑا اٹھایا۔ ساتویں روز لڑکے کا نام شیر محمد رکھا گیا۔
بابا امیر الدین ؒتو اشارہ کر کے چلے گئےلیکن اشاروں سے کیا ہوتا ہے۔ میاں عزیز الدینؒ کے لیے ان کا ایک بیٹا ہی تھا اور محلے داروں کے لیے دوسرے بچوں جیسا ایک بچہ۔ میاں غلام رسول ؒخاندان کے سب سے معمر بزرگ تھے انہوں نے آپؒ کا چہرہ دیکھتے ہی آپؒ کے منہ میں زبان ڈال دی۔ شیر خوار دیر تک ان کی زبان چوستے رہے۔ اس طرح ورثہ منتقل ہو گیا۔ میاں غلام رسولؒ کو آپ ؒکے نانا کے علاوہ دادا کی حثیت بھی حاصل تھی۔ وہ انہیں ایک پل کے لیے بھی آنکھوں سے اوجل نہ ہونے دیتے اور کمسنی میں ہی علم وحکمت کے رموز سمجھانے کی کوشش کرتے۔ آپ ؒپلکیں پٹ پٹاتے اور مسکراتے ہوئے سنتے رہتے۔ آپؒ میں سادگی اور معصومیت کے ساتھ ساتھ بعض مجنونانہ ادائیں بھی تھیں۔ جو نانا کو دیوانہ کر دیتی تھیں۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ آپ ؒکو ہمہ وقت سینے سے لگائے رکھیں۔ نانا اور نواسے کی یہ رقابت زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ میاں غلام رسولؒ کا بلاوا آگیا۔ زندگی کے آخر لمحوں میں میاں غلام رسول ؒنے اپنے دوسرے نواسے یعنی میاں عزیز الدینؒ کے بھائی حمید الدین کو وصیت کی تھی کہ ، دیکھ حمید! ہم شیر محمد ؒکو تیرے حوالے کر رہے ہیں جو کچھ تجھے آتا ہے وہ اِسے سونپ دے اور جو کچھ نہیں آتا اس کے لیے بھی اس کی رہنمائی کر۔ ہماری دعائیں تیرے ساتھ ہیں۔ حافظ حمید الدینؒ کا شمار عربی و فارسی کے اساتذہ میں ہوتا تھا۔
آپ ؒجیسے ہی چلنے پھرنے کے قابل ہوئے قرآنی آیات سے آپؒ کی تعلمیات کا آغاز کیا گیا۔ آپؒ نے پہلا قاعدہ بہت جلد ازبر کر لیا تھا۔ ماں اور چچا کی نگرانی میں آپؒ نے گھر میں ناظرہ قرآن ختم کیا۔ وہ حرف شناس ہوگئے تھے۔ چچا نے آپؒ کو شرقپور کے سکول میں داخل کروایا۔ سکول کی فضا آپؒ کے لیے نئی تھی، ماں اور چچا کی خواہش پر آؒپ پابندی سے سکول تو چلے جاتے مگر وہاں آپؒ کا جی نہیں لگتا تھا۔۔ چچا آپؒ کی بے دلی پر ہراساں ہو گے۔ آپؒ کے اساتذہ بتاتے کے آپؒ جماعت میں گم سم بیٹھے رہتے ہیں۔ آپؒ کا عجب عالم تھا ،چھٹی کی گھنٹی بجتی تو سب بچے کھیل کود میں مشغول ہو جاتے لیکن آپؒ مسجد کا رخ کرتے اور وہاں جاکر سرجھکائے تنہا بیٹھے رہتے۔ بہر صورت کسی نہ کسی طرح آپؒ نے پانچویں جماعت پاس کر لی۔
چچا کو احساس ہو گیا کہ مدرسہ آپؒ کے لیے مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے مستقل طور پر آپؒ کو نگاہوں کے سامنے رکھنا شروع کر دیا اور فارسی کی درسی کتب سے ابتدا کی۔ دادا حافظ محمد حسین ؒنے بھی توجہ کی اور قرآن کا آموختہ کرایا۔ آپؒ کا یہ حال تھا کہ جب سپارہ پڑھنے کو دیا جاتا تو آپ ؒکی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے سپارہ بھیگ بھیگ کر چند روز میں خستہ ہو جاتا۔ دادا آپؒ کی اشک فسانی کی وجہ پوچھتے تو جواب سکوت کے سوا کچھ نہ ہوتا۔ دادا اور چچا کی درخواست پر شہر کے ایک عالم حکیم شیر علی نے آپؒ کو کتابوں کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی۔ آپ ؒنے اب بھی کتابوں میں کسی دلچسپی کا اظہار نہ کیا۔ ہاں آپؒ کو خوشنویسی سے ضرور کسی قدر رغبت ہوئی۔ مدرسے ہی میں آپؒ حروف و الفاظ کو ایک کہنہ مشق خطاط کی طرح نئی نئی شکلیں دینے لگے تھے۔ آپ ؒنے مختلف خطوں میں قرآن پاک لکھنے کی مشق کی۔ آپ ؒکی مکتوبہ بیاضیں اور قرآنی نسخے دیکھ کر بڑے بڑے کاتب نقاش اور خطاط انگشت بہ لب رہ جاتے تھے۔ کسی کو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ کام نو مکتب کا کیا ہوا ہے۔
یہ شوق تو تھا ہی، آپؒ کو بچپن سے ایک اور شوق بھی تھا۔ آپ ؒکو گھوڑے بہت پسند تھے۔ آپؒ کو گھوڑوں اور ان کی سواری کا شوق تھا۔ کھبی طبعیت جولانی پر آتی تو آپؒ گھوڑے پر بیٹھ کر شہر سے میلوں دور نکل جاتے۔ شہر کے لوگ دنگ رہ جاتے کہ اس لڑکے کی تو ابھی مسیں بھی نہیں بھیگی ہیں، یہ کس بے جگری سے ایک قوی الحبثہ گھوڑے پر اڑا جارہا ہے۔
شیر ربانی حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃاللہ علیہ جب ظاہری علوم سے فارغ ہوئے تو آپؒ حضرت بابا امیر الدینؒ کو ٹلوی نقشبندی کے دست حق پر بیعت ہوئے ۔
شیر ربانی حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃاللہ علیہ صبح اول وقت میں بیدار ہوتے اورحجرہ مبارک سے باہر آکر نماز فجر کے بعد درود شریف کا حلقہ ہوتا اور آپؒ اسکو اتنا طول دیتے کہ نماز اشراق کا وقت ہو جاتا تھا ۔نماز اشراق کی ادائیگی کے بعد بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دیتے اور گیارہ بجے کے قریب فارغ ہوتے ۔پھر مہمانوں کے لیے کھانے کا انتظام اور دیگر امور کی نگہبانی فرماتے آپ ؒکے عقیدت مندوں اور مریدوں اور ملنے والوں کا ایک وسیع حلقہ آپ ؒکی خدمت میں موجود ہوتا تھا ان کے لیے کھانا خود لے کر آ تے اور ہر بکائی میں سالن خود ڈالتے تھے ۔ پھر دوپہر کو کھانا مل کے کھاتے تھے ۔
شیرربانی حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃاللہ علیہ کو مساجد کے تعمیر کا بہت شوق تھا ۔ آپؒ نے مساجد تعمیر کروائیں اور ان مساجد میں بطور مزدور خود بھی حصہ لیا ۔آپ ؒاسما ئے الہی اور اسمائے محمد نہایت خوبصورت انداز میں مساجد میں آویزاں کیا کرتے تھے ۔
اوکاڑہ کا رہائشی ایک نابینا شخص حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃاللہ علیہ سے ملاقات رکھنے کی آرزو رکھتا تھا۔ایک مرتبہ شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر شرقپور شریف پہنچا ،رات کا وقت تھا ،شہر کے دروازے بند تھے ۔ اس نے شہر کے باہر بیرون ملکانہ گیٹ مولوی محمد شفیع کی مسجد میں قیام کیا ، حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃاللہ علیہ اکثر اس مسجد میں تہجد ادا کیا کرتے تھے ۔ اس رات بھی وہاں تہجد کی نماز کے بعد وظائف مین مشغول تھے۔ کچھ دیر بعد آپ ؒنے آواز دی کوئی شخص مسجد میں موجود ہے تو فجر کی نماز کے لئے آذان دے ۔ جواب میں وہی نابینا شخص بولا کہ حضرت اس وقت مسجد میں اور کوئی معلوم نہیں ہوتا میں نابینا ہوں۔ آ پؒ نے فرمایا کہ اچھا تم باہر جا کر دیکھ لو ۔ وہ نابینا شخص اٹھا اور باہر نکلا تو اس کی بینائی لوٹ چکی تھی اس نے آسمان پر ستارے جھلماتے دیکھے ، فجر کی آذا ن کا وقت ہو رہا تھا وہ شخص اند ر آیا اور آپؒ کے قدموں میں گر پڑا اور کہنے لگا کہ آپؒ ہی شیر ربانیؒ ہیں۔
آپؒ نے اس شخص کو اٹھایا اور کھا نا کھلایا، واپسی کا کرایہ دیکر رخصت کیا اور فرمایا کہ تم اس بات کا ذکر کسی سے نہ کرو گے ۔آپؒ کے بعد آپ ؒکے بھائی حضرت میاں غلام اللہ رحمۃاللہ علیہ مسند خلافت پر رونق افروز ہوئے پھر آپ ؒکے بیٹے میاں غلام احمد نقشبندی رحمۃاللہ علیہ سجادہ نشین مقرر ہوئے ۔ بعد ازاں صاحبزادہ میاں مرغو ب احمد شرقپور ی رحمۃاللہ علیہ سجادہ نشین آستانہ عالیہ مقرر ہوئے ۔ آپؒ کا عرس مبارک ہر سال 1,2,3ربیع الاول کو شرقپور شریف ، ضلع شیخوپورہ میں منعقد ہوتاہے ۔
آپ ؒکے مشہور خلفا ء حضرت سید اسماعیل شاہ رحمۃاللہ علیہ آستانہ عالیہ کرمانوالہ شریف ،سید نور الحسن شاہ ؒآستانہ کیلانوالہ شریف ۔ میاں محمد عمر بیربلوی ؒآستانہ عالیہ پیر بل شریف ۔حضرت میاں رحمت علیؒ صاحب آستانہ عالیہ گھنگ شریف قابل ذکر ہیں۔
علامہ اقبالؒ کو اپنے عہد کے جس نقشبندی بزرگ سے سب سے زیادہ عقیدت تھی، وہ شیر ربّانی حضرت میاں شیر محمد شرقپوری ؒ تھے،جن کا سلسلۂ طریقت13 واسطوں سے حضرت امام ربّانیؒ،حضرت مجدّد الف ثانیؒ سے متصل ہوتا ہے۔
آپؒ کے وجود ِسعید کی برکتوں سے سرزمین پنجاب میں اعلا ئے کلمۃُ الحق اور احیائے سنتﷺ کے عظیم کارنامے سر انجام پائے۔انیسویں صدی کے رُبع آخر سے لیکر بیسویں صدی کے نصف اوّل تک ، حضرت میاں صاحبؒ اور آپ ؒ کے خلفا نے آپؒ کے قائم کردہ ’’نظم مرکزی‘‘ کے تحت نہایت،فقید المثال روحانی، دینی اور اصلاحی خدمات سر انجام دیں، اور یوں سکھ عملداری اور انگریز راج کے سبب دین سے بیگانگی اور اسلام سے دوری کا تدارک، شریعتِ مطہرہ کی ترویج کے ذریعے ، آپؒ نے ممکن بنایا ۔علامہ اقبالؒ... حضرت میاں صاحبؒ کے ہم عصر تھے، جس طرح انہوں نے سرہند شریف حاضر ہوکر ، حضرت مجدّد الف ثانیؒ کے مزار اقدس سے اکتسابِ فیض کیا، اسی طرح ، آپؒ حضرت میاں صاحب شرقپوریؒ سے بھی بالمشافہ ملاقات کے متمنی تھے، علامہ اقبال ؒ کی شرقپور حاضری کے حوالے سے بہت سی روایات لوگوں میں معروف ہیں۔
علامہ اقبالؒ پہلی مرتبہ شرقپور شریف ،اپنے دوست سر محمد شفیع کیساتھ آئے۔سر میاں محمد شفیع، باغبانپورہ لاہور کے رہائشی ، اعلیٰ تعلیم یافتہ، لاہور کے معزز گھرانے کے فرد، سیاستدان اور حضرت میاں صاحبؒ کے خالہ زاد تھے۔ حضرت میاں صاحبؒ اکثر سر محمد شفیع کو تنبیہ اور نصیحت بھی فرما یا کرتے کہ اے کاش!
تیرے چہرے پر داڑھی ہوتی اور تو شکل و صورت سے مسلمان لگتا، انگریز کونسل کے اجلاس میں، اجلاس کے دوران ، نماز کا وقت ہوتا اور تُو اُٹھ کر نماز اداکرنے جاتا، انگریز بھی دیکھتے کہ تُو مسلمانوں کا واقعی سچا نمائند ہ ہے۔
سر محمد شفیع سے قریبی رشتہ داری کے سبب شفقت بھی فرماتے ، حضرت میاں صاحبؒ کی آبائی رہائش ، اندرون شہر ، ملکانہ گیٹ میں واقع تھی،شرقپور شریف، شاہ جہان کے عہد کا شہر ، جس کی آبادی اندرون شہر "Walled City" تک محدود تھی ، داخلے کے چار دروازے تھے ، بالعموم چھوٹی اینٹ کی عمارتیں، تنگ گلیاں اور محدود سڑکیں تھیں۔آپؒ کی رہائش کے قریب ہی آپؒ کی مسجد تھی ، جوآپؒ کی نسبت سے" مسجد حضرت میاں صاحب والی" کہلواتی، یہیں پر آپؒ خطبہ جمعتہ المبارک بھی ارشاد فرماتے اور دیگر روحانی اور دینی اشغال کے لیے قیام بھی فرماتے ،اس مسجد کی ابتدائی توسیع1923ئ، مابعد 1944ئ، ازاں بعد پچیس سال قبل... جب موجودہ سجادہ نشیں صاحب کی سرکردگی میں اس کا اہتمام ہوا، تو زیر زمین پرانی مسجد کا سٹرکچر، اور آپؒ کی قدیم چلہ گاہ جیسے"بھورا" کہتے تھے، کی زیارت کا راقم کو بھی شرف میسر آیا۔ علامہ اقبال ؒاپنی اوّلین حاضری میں سر محمد شفیع کے ساتھ اسی مسجد میں اُترے،شفیع صاحب، اس خیال سے کہ اگر میاں صاحبؒ کی طبیعت پر زیادہ جلال غالب نہ ہوا، تو اقبال ؒ کو گھر پہ ہی بلا لوں گا، وگرنہ...آپؒ کے سوانح نگار صاحبِ ’’انقلابُ الحقیقت‘‘نے آپؒ کے جلال اور جمال کے بارے میں خوب لکھا کہ حضرت میاں صاحبؒ کا جلال کسی کو آگے بڑھنے نہ دیتا اور جمال آگے سے ہٹنے نہ دیتا ، جو ایک بار حاضر ہوا پھرکہیں اور جانے کا نہ رہا ، جس وجود میں آپؒ کی محبت سرایت کر گئی ، وہ روشن ہوگیا، جو خاندان اس صفت سے متصف ہوا وہ منور ہوگیا... بہر حال حضرت میاں صاحبؒ جلال میں تھے، علامہ اقبالؒ پیش ہونے کی ہمت نہ کرسکے۔سر محمد شفیع جو"جنگ عظیم اوّل" میں انگریز کی کامیابی کی درخواست پیش کرنا چاہتے تھے، وہ بھی ایسا نہ کر سکے ، اور یہ دونوں شخصیات اس خیال اور اُمید پہ واپس لاہور چلی آئیں کہ حضرت میاں صاحبؒ کبھی کبھار اپنی خالہ صاحبہ، یعنی سر محمد شفیع کی والدہ کو ملنے بھی تشریف لاتے تھے شاید یہ اُمید وہاں بَر آئے۔
آپؒ کو لاہورمیں حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار کی حاضری بڑی مرغوب تھی ، فرمایا کرتے تھے، جس کے پاس مدینہ شریف حاضری کا سامان نہ ہو ، وہ داتا صاحبؒ کے مزار پر حاضری دے دیا کرے۔
حضرت شاہ محمد غوث ؒ کے مزار کی زیارت کے علاوہ ، نقشبندی سلسلے کے ایک عظیم بزرگ خواجہ خاوند محمود، جو حضرت ایشاں کے نام سے بھی معروف تھے ، کے دربار پر بھی حاضری کا شوق فرماتے ، جن کا مزار بھی باغبانپورہ ہی میں ہے ، چنانچہ کچھ ہی دنوں کے بعد حضرت میاں صاحبؒ ،سر محمد شفیع کے ہاں تشریف لائے ، تو وہیں پر علامہ اقبالؒ کو بھی ملاقات کا شرف عطا ہوا، چونکہ آپؒ داڑھی نہ رکھنے والوں کو سخت ناپسند فرماتے تھے، اس لیے علامہ اقبال کی طرف بھی ا لتفات نہ فرمایا، چہرہ پر ناگواری کے اثرات دیکھ کر ، علامہؒ نے اپنا وہ معروف جملہ عرض کیا کہ"گناہ سے نفرت ہونی چاہیے، نہ کہ گنہگار سے " اقبالؒ کی بات سُن کر میاں صاحبؒ کے چہرے پہ تبسم آیا، مُسکرا کر فرمایا"بیلیا!تُو تیَ ناراض ای ہوگیا ایںـ"بیلیا! یعنی اے دوست، یہ آپؒ کا مخصوص اندازِتخاطب تھا،، جو کہ کسی نہ کسی سطح پر اب بھی شرقپورشریف کی خانقاہ میں مروّج ہے۔آپؒ نے ازرہِ محبت اقبالؒ کے کندھے پہ دستِ شفقت رکھا، جس کی بابت اقبالؒ نے کہا کہ مجھے یوں لگا، جیسے میرے وجود میں کوئی نورانیت سی کوند گئی ہو۔آپؒ سے اپنی معروضات پیش کیں، علامہ اقبالؒ اس ملاقات سے بہت سرشار اور از حد متاثر ہوئے، واپس آکر ، عالمِ محویت میںاپنی کیفیات اپنے معروف اشعارمیں بیان کیں ،جو حضرت میاں صاحب کی زیارت کے وقت ،ان کے قلب پہ وارد ہوئیں، بانگ درا میں منقول ان شہر ۂ آفاق غزل،اشعار میں سے چندایک ملاحظہ ہوں : " جنہیں میں ڈُھونڈتا تھا" آسمانوں میں زمینوں میں وہ نکلے میرے ظلمت خانۂ دل کے مکینوں میں نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہوتو دیکھ ان کو یدِبیضا لیئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں جِلا سکتی ہے شمع کشتہ کو موجِ نفس اُنکی اِ لہٰی کیا چھپا ہوتا ہے، اہلِ دِل کے سینوں میں تمنا درد ِدل کی ہو، تو کر خدمت فقیروں کی نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں مہینے وصل کے گھڑیوں کی مانند اُڑتے جاتے ہیں مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں خاموش اے دل! بھری محفل میں چلّا نا نہیں اچھا ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں اس کے بعد علامہ اقبالؒ نے آپؒ کی بار گاہ میں حاضری کا متعدد مرتبہ شرف پایا۔